ہے کس کا یہ جنگل مجھے ہے خبر
قریب ایک گاؤں میں ہے اُس کا گھر
نہیں دیکھے گا مجھ کو ٹھہرا یہاں
ہوں تکتا چکی برف ہے بن کو بھر
مرے گھوڑے کو یہ لگے گا عجیب
ٹھہرنا نہیں گھر جہاں پر قریب
زمستانی جھیل اور جنگل کے بیچ
اندھیری تریں سالہ شامِ غریب
گلے کی وہ گھنٹی ہے دیتا بجا
مجھے پوچھنے کو ہوئی گر خطا
ہیں آواز کرتے علاوہ ازیں
یہ ہلکے سے گالے یہ ٹھنڈی ہوا
پراسرار جنگل ہے پیارا گھنا
مگر مجھ کو وعدے ہیں کرنا وفا
ہے چلنا کئی میل سونے سے قبل
ہے باقی ابھی تو بہت فاصلہ