محبت سےدیکھے، تو ہم دیکھتے ہیں
وہ پہلو بچائے، تو کم دیکھتے ہیں
لپٹ کر ہی رہتے ہیں اُس خاک سے ہم
'جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں'
نشہ تو، اترنے پہ آتا نہیں ہے
نظر اُسکی جب، دم بدم دیکھتے ہیں
یہ چہرہ، یہ آنچل، یہ زلفیں، جوانی
خُدا کا بہت ہی کرم دیکھتے ہیں
لڑائی کا جذبہ اگر دیکھنا ہو
سپاہی کا حُبِ عَلَم دیکھتے ہیں
کرم تیرا مجھ پر ہے ماضی کا قصہ
ہم اب تو بہر سُو، ستم دیکھتے ہیں
تمھیں ہم نے چاہا جو خود کو بُھلا کر
تمھیں بھی ہے اس کا بھرم؟ دیکھتے ہیں
ہیں آنکھوں کی ٹھنڈک یہ مکہ مدینہ
جو بےچین دِل ہو، حرم دیکھتے ہیں
تیری ضِد ہمیشہ ہے چُھپنے کی مجھ سے
تُو جیتے گا یا مَیں، صنم! دیکھتے ہیں
سِتم ہی سِتم ہیں مقدر میں اپنے
نکلتا ہے کب اپنا دم؟ دیکھتے ہیں
سنبھلتے ہیں عمران، 'مشکل سے تب ہم
تِری زلف میں جب یہ خم، دیکھتے ہیں
۱۵ اپریل ۲۰۱۷
بروز بدھ
نالج ہاؤس سکول سسٹم
حافظ آباد
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem
Baqol e Iqbal, Hind ke shaair o soorat gar o afsana nawees. Ah becharon ke aasaab pe aurat hai sawaar. Shukria.