وقت کیسا انقلاب لایا ہے
وقت کیسا عذاب لایا ہے
تم کب لائق محبت ہو
آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو
قاصد یہی جواب لایا ہے
گویا خط میں عتاب لایا ہے
جو سر کے بل چلے تھے
ناکام ٹھہرے
پت جھڑ گلاب لایا ہے
ذلیخا کا عشق سچا سہی
وہ برہنہ پا کب چلی تھی
پہیہ عمودی چال چلا ہے
زندہ قبر میں اتر گیا ہے
آنکھ دیکھتی نہیں
کان سنتے نہیں
وقت کیسا انقلاب لایا ہے
بارش قرض دار بادلوں کی
بادل بینائ کو ترسیں
زخمی زخمی
ہر سہاگن کی کلائی
بیوہ سولہ سنگار سے ہے
وقت کیسا انقلاب لایا ہے
وقت کیسا عذاب لایا ہے
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem