چلے جانا، مگر جانے سے کیا ہو گا؟ Poem by Imran Cheema

چلے جانا، مگر جانے سے کیا ہو گا؟

چلے جانا، مگر جانے سے کیا ہو گا؟
کہ اب میرے بکھر جانے سے کیا ہو گا؟

ٹھہر کر دو گھڑی تُم بات سُن لو
مگر ٹھہرو، ٹھہر جانے سے کیا ہو گا؟

تمہی نے قسمیں کھائی تھیں نبھانے کی
مُکر جاؤ، مُکر جانے سے کیا ہو گا؟

بدن اور روح ویسے بھی الگ ہونے کو ہیں
جو ایسا ہے، تو مر جانے سے کیا ہو گا؟

محبت سے بھرے جذبے مٹا ڈالے
تمھارے اب نکھر جانے سے کیا ہو گا؟

مجھے اُن کا، نہ بچوں کو پتا میرا
تو برسوں بعد گھر جانے سے کیا ہو گا؟

ہواؤں کو کوئی جا کر یہ سمجھا دے
کہ پتوں کے بکھر جانے سے کیا ہو گا؟

تلاطم اپنے دل میں اُس سے بڑھ کر ہے
سمندر کے بپھر جانے سے کیا ہو گا؟

نظر بھر کر نہیں اب دیکھتے عمرانؔ
تو پھر تیرے سنور جانے سے کیا ہو گا؟

محمد عمران چیمہ
۳۰ اگست ۲۰۱۹
۲: ۰۰ بجے رات
چیمہ ہاؤس

Sunday, September 22, 2019
Topic(s) of this poem: sad love
COMMENTS OF THE POEM
READ THIS POEM IN OTHER LANGUAGES
Imran Cheema

Imran Cheema

Hafizabad, Pakistan
Close
Error Success