جب تک تن پر وردی تھی شہزور سے دکھتے تھے ابا جی
وردی اتری تو کچھ نہ رہے بے زور سے دکھتے تھے ابا جی
گھر اتنا بڑا تو بنا ڈالا بوڑھے ہاتھوں سے سنبھلتا نہ تھا
باقی نہ بچی وہ کر و فر کم زور سے دکھتے تھے ابا جی
بنیادوں میں رشوت کی اینٹیں، کچھ سونے کی کچھ چاندی کی
اولاد اتنی کہ گن نہ سکیں، کچھ بیگم کی کچھ باندی کی
فرماں بردار فرنگی کے تھے جاگیریں ملیں غداری میں
دادا جی کی سارری عمر کٹی عیاری میں مکاری میں
گھر میں مجرے ہوتے تھے بڑے دادا کی دختر ناجائز
ناز اور نخرے دکھاتی تھی چاچا جی کی دلداری میں
دادی روتی رہتی تھیں اپنی ہی بہن کا دیکھ کے رقص
مونچھوں پہ تاؤ دیا کرتا تھا مسند پر ببیٹھا بیغیرت شخص
یہ جھلک ہے گزرے زمانے کی اس سے زیادہ کیا لکھوں
ھم ہیں شکار مکافات عمل میں اس سے زیادہ کیا سوچوں
پھر بھی اپنے بچوں سے اور اپنے بچوں کے بچوں سے
کہتا ہوں وہ زمانہ اچھا تھا تم ہی کہو پھر کیا بولوں
کل یہ زمانہ جیسا تھا آج بھی بالکل ویسا ہی ہے
انسان سدا سے جیسا تھا آج بھی بالکل ویسا ہی ہے
کل بھی ڈاکے پڑتے تھے آج بھی ڈاکے پڑتے ہیں
عورتیں بچے لٹتے تھے آج بھی لٹتے رہتے ہیں
ٹی وی نہ تھا اخبار نہ تھا ایسی خبریں عام نہ تھیں
دھشت طاقت والوں کی اتنی زیادہ سرعام نہ تھیں
بیٹے منہ زور وزیروں کے ہم بچے ہیں فقیروں کے
ھم آج بھی پوجنے والے ہیں ریت پہ لکھی لکیروں کے
کمزور کا جینا کیا جینا کمزور تو مرتے رہتے ہیں
چلو اتنا تو فرق پڑا کہ سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں
پتھر پگھلے عرش بنے ویسے تو عرش ہے حد نظر
یہ سسکیاں شاید رب سن لے ھم بس اسلیۓ روتے ہیں
کمزوروں کو مجبوروں کو تھوڑی سی توانائ دے دے
یا رب ہم بزدل انسانوں کو بس قؤت گویائ دے دے
(Google's translation of this Urdu poem is completely absurd)
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem