بارش آئ بارش آئ بجنے لگی شہنائ
ہریالی کی آغوش میں رنگ برنگے پھول کھلے
مست ہوۓ بادل اتنا لینے لگے انگڑائ
اوپر کیا کیا ہوتا ہو گامستی ہے بادل کے تلے
نیچے ایک شاعر آوارہ ہے اور اسکی تنہائ
خوابگاہ میں چاند چھپا سورج اب چپ چاپ جلے
تھوڑی سی کھلی تھوڑی سی ڈھنکی دیکھو برکھاآئ
بن کے پنچھی مست اڑے ہرنی جیسی چال چلے
مانگ کی افشاں بنے ستارے چاند کی تو بن آئ
دوپہر کا وقت ہے ایسا جیسے دن سے رات ملے
چھپا کسی کے آنچل میں چاندنی ہے شرمائ
وہ لو آئ شریر پھوار نیند کے ماتے نین کھلے
آ گئی آ گئی میری سجنیالاج کی ماری اور شرمائ
اڑتا آنچل بوجھل پلکیں بکھرے بکھرے بال کھلے
ان گھڑیوں کا دینے حساب بارش آئی وہ نہ آئی
آجا برکھا نہ رک جاۓ آ اپنے شاغر سے مل لے
موم کی ایک چٹان آئ مٹی کی ایک گڑیا آئ
مٹی سے مٹی کاملن مٹی میں گندھے مٹی میں پلے