کتبے پر لکھی نظم Poem by Aamir Abdullah

کتبے پر لکھی نظم

عظیم شاعر مجید امجد کی برسی پر ایک نظم ان کے نام۔

"کتبے پر لکھی نظم" - - عامر عبداللہ

تو کیا اب بھی
کہیں وہ چوڑیاں محفوظ ہوں گی
ایک نازک سی
بیاض عشق پر مرقوم وہ اک نام
اک شاعر کا نام
اب بھی لکھا ہو گا۔۔۔۔؟
بیاض عشق اک جزدان میں
لپٹی ہوئی ہو گی
یا پھر میلی پرانی یاد بن کر
اک سیاہ صندوق کی تہ میں پڑی ہو گی
کسے معلوم ہے
میونخ میں گرتی برف کے نیچے
دبا کیا ہے۔۔۔؟
کسے معلوم ہے کہ ٹیکسلا کے سب نوادر میں
کسی کا دل دھڑکتا ہے
سبھی کھنڈرات میں اب بھی
کسی کی گم شدہ سی مسکراہٹ
لہر بن کر لوٹتی ہے
ریت پر ابھرے ہوئے کچھ نقش
اب بھی چاندنی میں جگمگاتے ہیں
محبت وجد میں آیا ہوا لمحہ ہے
جس کے دائرے میں گھومتا
میونخ بھی ساہیوال بھی ہے

محبت، ایک شاعر کی محبت
روشنی کی کرچیوں پر رقص
برفیلی ہوا کی دھار پر دو نیم ہونے کا عمل
کرنوں کے پیوست ِگلو ہونے کی
وہ چبھتی اذیت ہے
جو روحیں چھیدتی ہے
درد بن کر سانس کے ہمراہ چلتی ہے
محبتسرخ رنگیچوڑیوں سی ہے
جنہیں شالاط کی نازک کلائی پر
کھنکنے کی تمنا ہے
مگر جو ٹوٹ کر
شاعر کے دل میں کھب گئی ہیں
ہجر کے افسوس میں رستےہوئے
اک قطرہ خوں میں بسی ہیں

دائمی دکھ ہے مجید امجدمحبت
جو تمہارے دل سے میرے دل تک آیا ہے
تمہاری میز پر جلتی ہوئی
اک شمع میں روشن
مرے تاریک سینے میں
چراغ اس نے جلایا ہے ۔۔۔! ! ! !

Wednesday, September 25, 2019
Topic(s) of this poem: tribute
COMMENTS OF THE POEM
READ THIS POEM IN OTHER LANGUAGES
Close
Error Success