اشاروں اشاروں میں کیجئے نہ باتیں
مناسب نہیں پیار میں ایسی گھاتیں
یہ کاٹے بھی کٹتی نہیں ہجر میں کہ
بہت لمبی ہوتی ہیں سرما کی راتیں
کبھی تو چلے آوء درشن کرانے
کئ عیدیں بیتیں کئ شب براتیں
بھلا اور کیا دوں کہ دل دے چکا ہوں
کوئ ہونگی کیا اس سے بڑھ کر سوغاتیں
کبھی مان جاوء کبھی تو یہ کہہ دو
تمہی سے ہیں روشن یہ تاریک راتیں
کسی روز ملنے کا بھی قصد ہوجائے
بہت ہو چکی میری جاں اب تو باتیں
مظہربٹ
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem