خون کا اثر
۔۔۔۔۔
سب فرضی باتیں ہیں
قصے ہیں کہانیاں ہیں
خون کا اثر تربیت سے زیادہ ہوتا ہے
یہ طے شدہ نتیجہ ہے
تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے
تربیت مات نہیں دے سکتی فطرت کو
شفقت نہیں بدل سکتی خون کے اثر کو
نیک نیتی سے کی گئی نیکیاں
کبھی کبھی آزمائش بن جایا کرتی ہیں
خود کو مسلماں کہتے ہو
تو راضی برضا کیوں نہیں ہوتے
قرآن پڑ ھتے ہو
پھر رب کے فیصلے سے ٹکراتے ہو
جو فرض تم کو سونپا نہیں گیا چنا نہیں گیا
کیوں اس کا بار اٹھاتے ہو
اپنی ناقص عقل عقل کُل سے صلیب مقدر سے ٹکراتے ہو
حلال ، حرام برابر نہیں ہو سکتے
لے پالک بچے تمہاری ولدیت کے ساجھی نہیں بن سکتے
انہیں یتیم خانوں میں رہنے دو
مت توڑا ان کے ننھے دل
ان کے کمزور وجود کھلونا نہیں
یہ انسان ہیں
انسان کے گناہ کا حصہ نہیں
یہ خود گناہ گار نہیں ہیں
ناجائز بچے معاشرہ جائز نہیں کرتا
ان کو ان کی دنیا میں رہنے دو
بے خبری کی رو میں بہنے دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نادیہ عنبر لودھی
اسلام آباد
Inheritance is the base, imitations are the sides of a triangular life but a perpendicular from the vertex on the base cannot be ignored.
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem
Well written by Nadia umber Lodhi