انساں نے بیار سیکھا تو جنت سنور گئ
ھر سو ہمارے یار کی صورت بکھر گئ
دیکھا تو کؤی بھی نہ تھا اسکے سوا کہیں
تصویر دل سے نکلی تھی دل میں اتر گئ
لرزیدہ آسمان ہے اس ایک لمس سے
ایک لہر سی اٹھی تھی جو چھو کر گزر گئ
کس کس کو ایک بھول کا دینا پڑا حساب
ہر سمت انگلیاں تھیں جدھر بھی نظر گئ
میں کل بھی آدمی تھا میں اب بھی ہوں آدمی
دنیا نہ جانے کس بہ یہ الز؛م دھر گئ
معصوم تھا رقیب خطا تھی یہ یار کی
برباد کر گئ مجھے آباد کر گئ
اس فرش کو فرشتہ صفت کون کر سکا
لغذش ہماری عرش کو بھی فرش کر گئ
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem
Ek bemisal ghazal..............