گر میری محبت میٹھی ہے میں اسکو منوا لوں گا
آنکھیں اگر جھک بھی گئیں ہونٹوں سے کہلا دوں گا
گالوں گی گواہی مانو گے میں رنگ گلابی لایا ہوں
یہ چہرہ زرا نزدیک تو ہو رنگ شفق بکھرا دوں گا
زلفوں کی گواہی مانو گے یہ پھول ذرا تم ٹانکنے دو
میری گواہی دیں گی انہیں ان شانوں پر بکھرا دوں گا
کیوں ڈرتے ہو چھپتے ہو یہ عشق تو آگ ازل کی ہے
ہے کوئ اگر دنیا میں ابد اسے شعلوں یں پگھلا دوں گا
آنکھوں سے خوشبو پھوٹے گی جانے کیا کیا لوٹے گی
اب کیسے کہوں اور کیا کھ دوں کیا کیا میں لٹوا لوں گے
گھائل کرنا کام ہے گر گچھ اور زرا زخمی کر دو
جب ہاتھوں میں ہاتھ یہ آۓ گا میں چندن سے سہلا لوں گا
اوروں کی گواہی کیا لینا جب چاند سے باتیں ہونے لگیں
میں چپکے سے آجاؤں گا اور دل کو تیرے بہکا دوں گا
کچھ روٹھے روٹھے لگتے ہو ہونٹ سلے اور کان کھلے
لو لکھ دی تم پہ ایک غزل اب باتوں میں بہلا لوں گا
Anything that is associated with the student life is always attractive and appealing, so is this poem.