گواہی Poem by Akhtar Jawad

گواہی

Rating: 5.0

گر میری محبت میٹھی ہے میں اسکو منوا لوں گا
آنکھیں اگر جھک بھی گئیں ہونٹوں سے کہلا دوں گا
گالوں گی گواہی مانو گے میں رنگ گلابی لایا ہوں
یہ چہرہ زرا نزدیک تو ہو رنگ شفق بکھرا دوں گا
زلفوں کی گواہی مانو گے یہ پھول ذرا تم ٹانکنے دو
میری گواہی دیں گی انہیں ان شانوں پر بکھرا دوں گا
کیوں ڈرتے ہو چھپتے ہو یہ عشق تو آگ ازل کی ہے
ہے کوئ اگر دنیا میں ابد اسے شعلوں یں پگھلا دوں گا
آنکھوں سے خوشبو پھوٹے گی جانے کیا کیا لوٹے گی
اب کیسے کہوں اور کیا کھ دوں کیا کیا میں لٹوا لوں گے
گھائل کرنا کام ہے گر گچھ اور زرا زخمی کر دو
جب ہاتھوں میں ہاتھ یہ آۓ گا میں چندن سے سہلا لوں گا
اوروں کی گواہی کیا لینا جب چاند سے باتیں ہونے لگیں
میں چپکے سے آجاؤں گا اور دل کو تیرے بہکا دوں گا
کچھ روٹھے روٹھے لگتے ہو ہونٹ سلے اور کان کھلے
لو لکھ دی تم پہ ایک غزل اب باتوں میں بہلا لوں گا

Tuesday, April 9, 2019
Topic(s) of this poem: romance
POET'S NOTES ABOUT THE POEM
طالب علمی کے زمانہ میں لکھی ہوئ ایک غزل مسلسل
COMMENTS OF THE POEM
Khalid Saifullah 09 April 2019

Anything that is associated with the student life is always attractive and appealing, so is this poem.

0 0 Reply
READ THIS POEM IN OTHER LANGUAGES
Akhtar Jawad

Akhtar Jawad

Gorakhpur
Close
Error Success