محمدی محمدی محمدی میں بن گیا
میں آدمی تھا نام کا لو آدمی میں بن گیا
سدھرگیاسنور گیانکھارمجھ پہ آگیا
نکھار بھی ہے مختلف کچھ اور ہی میں بن گیا
شعور تھا نہ عشق تھا نہ بندگی نہ زندگی
اندھیرا اسطرح چھٹا کہ روشنی میں بن گیا
سانسیں لے رہا تھامیں دھڑک رہا تھا دل میرا
میں ایک موضوع شعر تھا شاعری میں بن گیا
عجیب ہے یہ عشق بھی یہ حد سے جب کبھی بڑھا
فنا وہیں پہ ہو گیا خود عاشقی میں بن گیا
میں عام سا درخت تھا یہ پھول جب سے ہے کھلا
کسی کسی میں ہو گیا کوئ کوئ میں بن گیا
میں آج عقلمند ہوں میں آج سر بلند ہوں
میں کچھ نہ بن سکاابھی ہاں سنتی میں بن گیا
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem