اس طرح ٹوٹ کے اب اور نہیں چاہوں گی
یاد آۓ گی تو خوابوں میں بلا لوں گی
تھپکیاں دے کے امنگوں کو سلا دوں گی
مانگنا ہو گا تو تم ہی سے تمہیں مانگوں گی
گھونٹ دوں گی میں گلا اپنی طلب کا اے دوست
آنکھیں بولیں گی تو آنکھوں کو جھکا لوں گی
گر ہوا چھیڑنے آئ میری زلفوں کو کبھی
میرا آنچل ہے سلامت میں چھپا لوں گی
یہ گلوبند جو شوخی پہ اتر آیا کبھی
اس حسیں بند سے گردن کو چھڑا لوں گی
یوں جلاؤ نہ مجھے مانا کہ عورت میں ہوں
میں جلی گر تو زمانہ کو جلا دوں گی
آزماؤنہ مجھے میں تھی کھری میں ہوں کھری
کھول دوں گی تمہیں آنکھوں کو جھکا دوں گی
رخ پہ گلرنگ اگرآۓ تو سجدہ ہی سہی
چہرہ مکہ سے مدینہ کو گھما لوں گی
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem
Beautiful poetry, so nicely described an innocent girl.