کروں کیؤں نہ انکی مدحت میں برنگ عاشقانہ
كہ كلام لم یزل بھی ہے بطرزوالہانہ
یہ خیال شاہ بطحا میرے قلب کا وضو ہے
میری روح کی عبادت ہے یہ ذکر والہانہ
یہ جہاں میں کون آیا كہ گرے صنم زمیں پر
ہوا شَر شکستہ آخر مٹے شرک و شاخسانہ
اٹھی رنگ کی قباحت مٹی نسب کی سیادت
کوئی پہلے اسطرح سے نہ بَدَل سکا زمانہ
اسی قوم کو كہ شہرت جسے جہل كے سبب تھی
ملے وہ تو علم و فن کا بنی بہا خزانہ
ہیں مورخین ششدر نہ ملی کجی کہیں بھی
پڑیں پوری زندگی پر وہ نگاہیں ناقدانہ
مجھے اپنی راہ فطرت پہ نقوش پاء ملے ہیں
نہ تو طرز راغبانہ نہ طریق راہبانہ
وہ صداقت و امانت كے عدو بھی دے گواہی
وہ بشر كے جس میں شَر کچھ نہیں پا سکا زمانہ
ابھی نور وحی رب سے وہ ہوئے نہ تھے منور
وہ چراغ ضوفشاں تھے بکمال عارفانہ
وہ لقب ہے جن کا امی وہی قاطع جہالت
وہی علم و فن میں یکتا وہی نادر و یگانہ
جو بھی اُس زُباں سے نکلا وہ مرصع ضیاء ہے
وہ قلوب جن میں اترا وہی محوش زمانہ
جو شکستہ دِل کو جوڑے وہ حبیب کبریاء ہے
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
(بمسرع طرح: جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ - جگر مرادآبادی)
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem
Musical rendition of Jigar Muradabadi's kalaam is my all time favourite. I have greatly enjoyed your Naat too. Thanks, Sir.