ذھن تیری ہر ہرایک بات اب تک تو میں نے مانی ہے
ہاں تجھکو بہلانے کو صحرہ کی خاک بھی چھانی ہے
تیری خاطر چیر دیا ہے سنگلاخی چٹانوں کو بھی
ایسی نہر نکالی میں نے دودھ سا جس کا پانی ہے
کہاں سے لاؤں نیا پن میںعشق وہی عاشق بھیی وہی
دن بھی وہی راتیں بھی وہی یہ دنیا وہی پرانی ہے
اختر صبح یا ستارۂ شام مشرق ہو یا مغرب ہو
سحر کی لالی شام کی سرخی دونو کی ایک جوانی ہے
ایک کرامت ہے یہ محبت خرچ کرو تو بڑھتی ہے
جسکا نشان کہیں نہیں دیکھا اسکی یہی تو نشانی ہے
جب میں اسکو سوچتا ہوں مجھے ایک سکون سا ملتا ہے
یہ سکون آۓ تو جاتا نہیں ورنہ ہر شے آنیجانی ہے
ذہنغلامی کر سکتا ہے دل کو غلامی قبول نہیں
دل کا قیام و رکوع نہ دیکھ آ دیکھ کہاں پیشانی ہے
اے ذہن مجھے پاگل نہ بنا بیہوش ہی مجھکو رہنے دے
میں عاشق اپنی فطرت کا فطرت بھی میری دیوانی ہے
اسکے نام پہ لڑنا جھگڑنا یہ قتل و غارت دھشت گردی
تو بھی عاشق مییں بھی عاشق دونوکی ایک کہانی ہے
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem