دونو کی ایک کہانی ہے Poem by Akhtar Jawad

دونو کی ایک کہانی ہے

ذھن تیری ہر ہرایک بات اب تک تو میں نے مانی ہے
ہاں تجھکو بہلانے کو صحرہ کی خاک بھی چھانی ہے
تیری خاطر چیر دیا ہے سنگلاخی چٹانوں کو بھی
ایسی نہر نکالی میں نے دودھ سا جس کا پانی ہے
کہاں سے لاؤں نیا پن میںعشق وہی عاشق بھیی وہی
دن بھی وہی راتیں بھی وہی یہ دنیا وہی پرانی ہے
اختر صبح یا ستارۂ شام مشرق ہو یا مغرب ہو
سحر کی لالی شام کی سرخی دونو کی ایک جوانی ہے
ایک کرامت ہے یہ محبت خرچ کرو تو بڑھتی ہے
جسکا نشان کہیں نہیں دیکھا اسکی یہی تو نشانی ہے
جب میں اسکو سوچتا ہوں مجھے ایک سکون سا ملتا ہے
یہ سکون آۓ تو جاتا نہیں ورنہ ہر شے آنیجانی ہے
ذہنغلامی کر سکتا ہے دل کو غلامی قبول نہیں
دل کا قیام و رکوع نہ دیکھ آ دیکھ کہاں پیشانی ہے
اے ذہن مجھے پاگل نہ بنا بیہوش ہی مجھکو رہنے دے
میں عاشق اپنی فطرت کا فطرت بھی میری دیوانی ہے
اسکے نام پہ لڑنا جھگڑنا یہ قتل و غارت دھشت گردی
تو بھی عاشق مییں بھی عاشق دونوکی ایک کہانی ہے

Monday, November 2, 2020
Topic(s) of this poem: love and life
COMMENTS OF THE POEM
READ THIS POEM IN OTHER LANGUAGES
Close
Error Success