ہاں ہم ہیں بڑے جھوٹے Poem by Akhtar Jawad

ہاں ہم ہیں بڑے جھوٹے

پوچھو تو کبھی ہم سے ہم کس لیے آتے ہیں
کچھ سیکھنے آتے ہیں کچھ سیکھ كے جاتے ہیں
ایک تو کہ چھپا بیٹھا خاموش بھی رہتا ہے
ایک ہم کہ تیرے قصے گڑھ گڑھ كے سناتے ہیں
کس شوق سے سنتے ہیں یہ لوگ تیری باتیں
ہم نثر میں کہتے ہیں یہ نظم بناتے ہیں
کوئی پوچھتا ہے زلفیں کس رنگ کی ہیں تیری
کوئی کہتا ہے وہ آنکھیں کس طرح ملاتے ہیں
کوئی کہتا ہے پیشانی کیا لوح کی مانند ہے
کوئی پوچھتا ہے بنسی وہ اب بھی بجاتے ہیں
ہے کیسی زُباں تیری ہیں ہونٹ تیرے کیسے
وہ گیت سنا دو نا جو گیت وہ گاتے ہیں
گورا ہے یا کالا ہے کیا سب سے نرالا ہے
ہم ہیں بڑے جھوٹے اور قسمیں بھی کھاتے ہیں
اب کیسے کہیں سب سے اب تک نہ اسے دیکھا
ہاں ہم ہیں بڑے جھوٹے بس جان چھڑاتے ہیں
یہ عشق كے مارے ہیں جو بھی نہ کریں تھوڑا
ہم ان ہی کے خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں.

Sunday, May 12, 2019
Topic(s) of this poem: lies,poet
COMMENTS OF THE POEM
READ THIS POEM IN OTHER LANGUAGES
Akhtar Jawad

Akhtar Jawad

Gorakhpur
Close
Error Success