پوچھو تو کبھی ہم سے ہم کس لیے آتے ہیں
کچھ سیکھنے آتے ہیں کچھ سیکھ كے جاتے ہیں
ایک تو کہ چھپا بیٹھا خاموش بھی رہتا ہے
ایک ہم کہ تیرے قصے گڑھ گڑھ كے سناتے ہیں
کس شوق سے سنتے ہیں یہ لوگ تیری باتیں
ہم نثر میں کہتے ہیں یہ نظم بناتے ہیں
کوئی پوچھتا ہے زلفیں کس رنگ کی ہیں تیری
کوئی کہتا ہے وہ آنکھیں کس طرح ملاتے ہیں
کوئی کہتا ہے پیشانی کیا لوح کی مانند ہے
کوئی پوچھتا ہے بنسی وہ اب بھی بجاتے ہیں
ہے کیسی زُباں تیری ہیں ہونٹ تیرے کیسے
وہ گیت سنا دو نا جو گیت وہ گاتے ہیں
گورا ہے یا کالا ہے کیا سب سے نرالا ہے
ہم ہیں بڑے جھوٹے اور قسمیں بھی کھاتے ہیں
اب کیسے کہیں سب سے اب تک نہ اسے دیکھا
ہاں ہم ہیں بڑے جھوٹے بس جان چھڑاتے ہیں
یہ عشق كے مارے ہیں جو بھی نہ کریں تھوڑا
ہم ان ہی کے خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں.
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem