جب فاصلے تھے پھر بھی انوکھا وہ لگا تھا
سچ کہتا ہوں ااٹھتا ہوا مطلع وہ لگا تھا
پہلی ہی نظر میں مجھے اجھا وہ لگا تھا
سج کہتا ہوں مجھکو بڑا سچا وہ لگا تھا
چلتا تھا وہ یوں جیسے کہ تصویر بنے گی
سج کہتا ہوں بہتا ہوا دریا وہ لگا تھا
دانتوں میں وہ آنچل لئے تکتا تھا زمیں پر
سج کہتا ہوں لکھتا ہوا کویتا وہ لگا تھا
رکتا تھا تو رک جاتی تھیں ساتھ اسکے نگاہیں
سج کہتا ہوں ایک رنگوں کا ڈیرہ وہ لگا تھا
کچھ کہتا تو چھن جاتی تھی سانسوں سے سماعت
سج کہتا ہوں خوشبو کا بسیرا وہ لگا تھا
اس شخص کی ہر سانس میں پنہاں تھے کئ رقص
سچ کہتا ہوں دو ہنسوں کا جوڑا وہ لگا تھا
دل ایسے دھڑکتاتھا کہ آواز نہیں تھی
سچ کہتا ہوں کچھ آنکھوں سے کہتا وہ لگا تھا
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem