غزل
یہ حصارِ آب جو ہر طرف میرے ٹُوٹنے سے ہے کُوزہ گر
جو تیری تپش نہ پَکا سکی، تو میں طاقچے پہ نہیں رہا
جو نظر کا تِیر کسَا ہُوا ،تیری ابروؤں کی کماں میں تھا
مجھے زخمِ دل سے پتا چلا ،کہ وہ اب وہاں پہ نہیں رہا
وہ جو راستوں پہ عبور تھا، وہ جو منزلوں کا شعور تھا
وہ جو بے وجہ سا غرور تھا ،وہی اب پروں پہ نہیں رہا
کئی حیرتوں کے تھے رنگ وبوُجہاں وحشتیں بھی تھیں تندخو
بڑھی آگہی کی جو جُستجو تو میں پھر گماں پہ نہیں رہا
انہی چاہتوں کے سُراب میں کئی حسرتوں کے حساب میں
جو تھا زُعمِ شکوہٗ بہ دلبراں وہی اب زباں پہ نہیں رہا
مجھے خاک نے کیا سُرخرو، ہُوا مِل کے بھی نہ وہ رُوبرو
وہ جو بارِ خواہشِ وصل تھا، دلِ ناتواں پہ نہیں رہا
مُجھے جنّتوں میں کشش نہیں، تُو زمیں پہ جینے دے ناصحا
تیری چشمِ کوتاہ کو کیا خبر،کیوں میں آسماں پہ نہیں رہا؟
تنویرشاہد
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem