غزل
دشتِ تنہائی پہ یوں اب کے گھٹا برسی ہے
نہ مِٹے پیاس نہ اندر کی ہی برسات ہَٹے
*
اب بھی دل یاد کی گلیوں میں اُٹھائے کشکول
ڈھونڈتا ہے کہ اُنہی لمحوں کی خیرات بَٹے
*
کیسی وحشت کہ جسے آنکھ نہ کرپائے عیاں
نہ اسیری ہوئی کم اور نہ جذبات گھٹے
*
دل دُکھاتا ہے وہ ملکر بھی مگر آج کی رات
اُسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے
*
کوئی بتلائے کہ گر زیست نہیں بارِ گراں
لاش برآب ہو کیوں روح کا جب ہاتھ چُھٹے
*
ہم کو تو اور ہی درپیش ہیں اب کارِزِیاں
اے چمن! تیری ہی کچھ تلخیِ حالات گھٹے
تنویر شاہدؔ
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem