وہ ایک راز جو ہم شعر میں سمو نہ سکے
تھی بات ایسی کہ جو آنکھ سے بھی ہو نہ سکے
جو ہوتی دل کی زمیں نَم! توپیار بھی اُگتا
جب آنسؤوں کا تھا موسم ، تو بیج بو نہ سکے
بچھڑتے وقت عجب یاسیت سے اُسنے کہا
کہ جیسے شعرکہو،ویسے خود کیوں ہو نہ سکے
نشانِ وصل تھا، داغِ ہجر تھا ، یا کچھ اور
کہ جسکو اشکِ ندامت بھی آج دھو نہ سکے
ہوأ تھا ہونے کا احساس جسکے ہونے سے
وہ ہوچکا تھا مگر ہم ہی اُسکے ہو نہ سکے
لہوکی سُرخی تری مانگ میں تو بھرتے مگر
یہ خوں سفید تھا ،ہم اُنگلیاں ڈبو نہ سکے
امیدِ خام ہے اُس شخص سے بھلائی کی
ذرا سی دیر جوپلکوں کو بھی بھگو نہ سکے
تنویرؔ پہلے تو ایسے نہیں تھے تُم بے حس
یہ کیساسانحہ اب سانحوں پہ رو نہ سکے
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem