غزل
ایک ہجر کی ناگن اور ایک گھائل رُوح
جانے کیوں مُقیّد ہیں ایک ہی پٹاری میں
اُسکے حسن کے صدقے وہ بھی آج وار دیئے
چندیاد کے سکّے جو تھے ریزگاری میں
وہ حروف کے پتھر مار کر تھا خوش لیکن
روح نہ بچاپایا میری اشک باری میں
وصل کی خواہش پر اُس نے گھور کر دیکھا
وہ تو مجھ کو لگتا تھا، اور ہی تیاری میں
میں نے عاق کرڈالا مجھ سے اب گلہ کیسا
تم نے خود لیا یہ دل اپنی ذمہ داری میں
ہم کو اُس گلی میں تو پاؤں لے کیجاتے ہیں
سر کیوں یاد رکھتے ہیں لوگ سنگباری میں
عشق میں تو تُم شاہدؔ اور نکھرتے جاتے ہو
لوگ جاں سے جاتے ہیں صرف جانکاری میں
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem