غزل
بے نشاں کیسے کہوں دل پہ نشاں آج بھی ہے
پہلے ہونے پہ یقیں تھا،تو گماں آج بھی ہے
ازل سے تُو جو نہ بدلا تومیں کیونکربدلوں
اُسی جنت اُسی دوزخ کی فغاں آج بھی ہے
تیرے غلمان جہاں حوروں کو تہہ تیغ کریں
راندۂ درگاہ کی جنت کا نشاں آج بھی ہے
وہی ذہنوں کی مریدی وہی زر کے انبار
وہی فتوے وہ شکاری وہ ملاں آج بھی ہے
ایک بیوہ نے جہاں زہر سے عصمت ڈھانپی
محل کے پہلو میں وہ کچامکاں آج بھی ہے
کانپتے ہاتھ، دوا لانہ سکے دہن تلک
وہی حوا، وہی مرتی ہوئی جاں آج بھی ہے
فکرِ شاہیں تو ہوئی دانۂِ گندم کی اسیر
شاھئِ گُرگ میں کرگس کا جہاں آج بھی ہے
گُل ہوئیں پیار کے مرقد کی سبھی قندیلیں
ایک بُجھتی ہوئی شمع کا دھواں آج بھی ہے
پہلی جنّت سے نکلنے کا میں خود شاہدؔ ہوں
کل جو تھا وسوسۂِ سُود و زیاں آج بھی ہے
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem