وصل کا نوٹیفیکیشن Poem by Dr-Mantashah Zia

وصل کا نوٹیفیکیشن

ایسا معلوم ہوتا ہے! ! !
جیسے میرے دِل کے دریچوں میں،
اداسی
ایک جوان خوبصورت دوشیزہ کی صورت میں
ڈیرہ لگا کر بیٹھ گئی ہے۔۔۔
جسے اب میں چاہ کر بھی نکالوں تو!
نہیں نکلے گی۔۔۔۔
جیسے اداسی
میرے سانسوں کے اندر سمائی ہوئی ہے،
جیسے میرے خون کی،
ہر بوند میں ویرانی کا
ایک مکمل حصہ شامل ہے،
غرضیکہ
غم اب میرے لیے میری پہچان،
اور میرا وجود بن گیا ہے۔۔۔
یا پِھر اس سے بھی کہیں زیادہ
میری ٹھوس ضرورت،
لیکن ایسا کب اور کیسے ہوا؟؟؟
اداسی کوئی ایسی شے بھی نہیں،
جو مجھے وراثت میں ملی ہو،
یہ کوئی میراث نہیں،،،
جسے نسل در نسل آگے سونپ دیا جائے ----
ضرور یہ کوئی کالا سایہ ہے!
کوئی ایسا آسیب ۔۔۔۔۔
جو میرا پیچھا چھوڑنے پر تیّار نہیں،،
اور شاید
اب تو میں نے بھی ہار مان لی ہے،
اب میں بھی دکھ کے گھنے جنگلوں!
اور لمبے درختوں کی چھاؤں کے نیچے
بیٹھ کر جھوٹ اور سچ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
میں جب اپنی آنکھوں میں جھانکتی ہوں!
تو اِن میں بسے،
اجنبی خوف کے سنگریزے،
مجھے دہکتے انگاروں کی مانند معلوم ہوتے ہیں،
جن کی تپش ہر پل بیکل کرتی ہے!
اور میرے لبوں پر منجمد خاموش چیخیں
اپنے آپ میں
ایک وحشت سموئے ہوئے مجھے سدا لب بستہ رکھتی ہیں!
میں اب جب
آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی ہوں،
تو مجھے!
یہ
سوگوار دکھائی دیتا ہے۔۔۔
میں جب خود کو
آئینے میں
دیکھتی ہوں
تو مجھے
میت دکھائی دیتی ہے ۔۔۔
''دور کہیں سے ماتم کی آواز سنائی دیتی ہے''
یوں معلوم ہوتا ہے!
جیسے
میری موت کا دن قریب ہو۔۔۔۔۔
شاید یونہی!
کسی دن میں چلتے چلتے
ریل کے نیچے آجاؤں گی،
یا پِھر!
خود کو کسی
ٹوٹی ہوئی پرانی مگر
اونچی عمارت سے نیچے پھینک دوں گی.۔۔۔
جب یہ
میرے اندر رہنے والا آسیب! !
مجھ پر اپنی گرفت
اتنی مضبوط کر لےگا،،،
کہ میری امید کی آخری روشنی کو
زیر کر لے گا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سنو!
اگر ایسا ہوجائے تو رونا مت! ! !
اور تم اداس مت ہونا! ! !
اگر ایک دن میرے خلل کا یہ دلدل!
مجھے نگل جائے تو،
تم اس میں کود مت پڑنا،
نہ کوئی حربہ آزمانا،
نہ مجھے گریبان سے پکڑ کر!
طرح طرح کے سوال کرنا،
نہ دِل میں کوئی کشمکش بسانا!
کہ
یہ نظام دنیا ہے!
جو بھی یہاں آیا ہے!
اسے ایک دن جانا بھی ہے! !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Myth
من تشاء ضیاء

وصل کا نوٹیفیکیشن
COMMENTS OF THE POEM
READ THIS POEM IN OTHER LANGUAGES
Close
Error Success