وہم
ایک دھول چڑھی تھی چوکھٹ پر
قفل بھی ذنگ آلودتھا
تختی پرنام بھی مٹاسا
جُٹا کے ہمت
اس نے اپنے پلّو سے
تختی کو پھر میرانام دیا
اپنے گداز نرم ہاتھوں سے
دل کے زنگ آلودقفل کو مقفل کیا
جسم کی بوسیدہ
دھول چڑھی چوکھٹ کو
اپنے چشمِ آبشار سے
روشن آئنہ کردیا
آج بھی روشن آئنوں میں
اس کاعکس ڈھونڈتا رہتاہوں
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem