عین ممکن ہے کہ میں سب سے کنارہ کر لوں
دل سے باتیں ہوں میں آپ اپنا نظارہ کر لوں
روشنائ ہو میرا خون میری سوچ قلم ہو
بھیگے کاغز کو زرا اور کرارہ کر لوں
آۓ طوفان اگر موجوں سے کھیلوں میں بھی
ڈوبے کشتی تو میں تنکے پہ سہارہ کر لوں
دن میرے ساتھ تو راتیں ہیں کسی اور کے ساتھ
ڈوبے بے مہر اندھیروں میں گزارہ کر لوں
چاند کا کیا ہے بدلتا ہے وہ چہرہ اپنا
ایک اختر ہے بہت اس سے اشارہ کر لوں
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem