اجنبی
کاش ہم تم بھی اجنبی ہوتے،
جیسےدنیاکےلوگ ہوتےہیں
لاتعلق وفاسےبیگانے
اتفاقّ کہیں جومل جاتے
راہ کتراکرہم نکل جاتے
نہ تصادم پہ دل مچل اٹھتا
نہ محبت کےدیپ جل پاتے
نہ توملنےکی آرزو ہوتی
نہ خوابوں کا تذکرہ ہوتا
نہ حسیں خط کبھی میں لکھ پاتا
نہ فسانوں کا سلسلہ ہوتا
نہ تغافل
نہ بےرخی
نہ کوئی ستم
نہ محبت کے امتحاں ہوتے
نہ شکست وفا کا غم ہوتا
یوںنہ آپس میں بدگماں ہوتے
سوچتا ہوں کبھی کبھی اکثر؟
تم سے الفت کی توکیا پایا
غم کے صحرامیں آج تنہا ہوں
نہ کوئی ساتھی نہ کوئی ہمسایہ
کاش ہم تم بھی اجنبی ہوتے
جیسےدنیا کے لوگ ہوتے ہیں
لاتعلق وفا سے بیگانے
وسیم عمر ۔
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem